سیّدی اعلٰی حضرت پر جاہلانہ متعصبانہ دیوبندی اعتراض کا جواب

تحریر ✍️ : میثم عباس قادری رضوی

مؤرخہ 2 فروری 2020ء , بوقت 06:57pm پر ساجد خان دیوبندی کے اپنے فیس بک اکاؤنٹ اور اس کے نام سے بنے فیس بک پیج سے ایک پوسٹ شیئر ہوئی
جس میں سیدی اعلٰی حضرت امامِ اہل سنت امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی علیہ الرحمۃ پر اس وجہ سے بدزبانی کی گئی ہے کہ:
آپ نے “فتاوی رضویہ” میں چمگادڑ کو حلال لکھا ہے.
یہاں معترض نے اعتراض کرتے ہوئے تعصب اور بددیانتی کا شرمناک مظاہرہ کیا ہے
کیونکہ سیدی اعلٰی حضرت نے فقہِ حنفی کی کتب کے حوالہ جات سے چمگادڑ کا مختلف فیہ ہونا بیان کیا ہے.اور اس کے حلال ہونے کو اپنا مختار مذہب قرار دینے کی وجہ بھی بیان کی ہے کہ آپ کی تحقیق کے مطابق یہ شکاری نہیں ہے اس لیے حلال ہے.

لیکن خائن معترض ساجد خان دیوبندی نے اعلٰی حضرت کی تحریر کا یہ حصہ پیش نہیں کیا تاکہ کہیں اس کے دجل کا پول نہ کھل جائے.
اس طرح کے فضول اعتراض کرکے یہ لوگ اپنی اور اپنے مذہب کی مزید رسوائی کا ذریعہ بنتے ہیں.
دیوبندی مذہب کے نام نہاد حکیم الامت مولوی اشرفعلی تھانوی نے سچ کہا تھا:
چھنٹ چھنٹ کر تمام احمق میرے ہی حصہ میں آگئے ہیں

( الافاضات الیومیہ, جلد1 صفحہ 274 مطبوعہ جامعہ اشرفیہ,فیزوزپور روڈ,لاہور)

اگر یہ دیوبندی احمق نہ ہوتے تو چمگادڑ کو حلال کہنے کہ وجہ سے اعلٰی حضرت پر بدزبانی نہ کرتے کیونکہ یہ فقہائے احناف کے درمیان اختلافی مسئلہ ہے.

اس مسئلہ میں اعلٰی حضرت پر طعن کرنے کامطلب ہے کہ دیوبندی معترض نے اُن فقہائے احناف پر بھی طعن اور بدزبانی کی ہے جو چمگادڑ کو حلال کہتے ہیں.
دیوبندیوں کو آئینہ دکھانے کے لیے ذیل میں وہ حوالہ جات پیش کیے جا رہے ہیں جن میں دیوبندی علما نے چمگادڑ کا حلال و حرام ہونا اختلافی تسلیم کیا ہے.

(1) دیوبندی مذہب کے حکیم الامت مولوی اشرفعلی تھانوی نے چمگادڑ کے بارے لکھا ہے:

“چمگادڑ کے پیشاب کو پاک کہا ہے کسی نے بوجہ عمومِ بلویٰ اور کسی نے اس وجہ سے کہ چمگادڑ کو بھی حلال مانا ہے”
اس کے تحت حاشیہ میں دیوبندی حکیم الامت نے لکھا ہے:
“فی الشامی و نقل انہ حلال فلااشکال فی طہارۃ بولہ وخرئہ۔
( ج:1,صفحہ138″)

اس تھانوی حاشیہ کا ترجمہ ہے کہ:
“شامی میں ہے: اور منقول ہے کہ یہ حلال ہے.لہٰذا اس کے پیشاب اور بیٹ کے پاک ہونے میں کوئی اشکال نہیں”

(بہشتی زیور,نواں حصہ,صفحہ781,مسئلہ:21_مطبوعہ مکتبہ مدنیہ,اردو بازار, لاہور)

👈 مولوی اشرفعلی تھانوی دیوبندی نے یہاں شامی کے حوالے سے یہ بات تسلیم کی ہے کہ چمگادڑ کی حلت و حرمت مختلف فیہ ہے.

(2) دیوبندی فرقہ کے “جامعۃ العلوم الاسلامیۃ” ( علامہ یوسف بنوری ٹاؤن,کراچی ) کے دارالافتاء نے چمگادڑ کے بارے سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھا ہے:
“چمگادڑ کے حلال یا حرام ہونے متعلق فقہائے کرام کے دونوں طرح کے اقوال کتب میں موجود ہیں”
( http://www.banuri.edu.pk
فتوی نمبر
: 143606200026
دارُالافتاء: جامعہ علومِ اِسلامیہ,علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن)

قارئین کرام !
اس فتوی میں دیوبندی مفتی نے تسلیم کیا ہے کہ چمگادڑ کے حلال و حرام ہونے کے بارے میں فقہائے کرام کے دونوں طرح کے اقوال موجود ہیں.

(3) مفتی سلمان منصور پوری دیوبندی نے چمگادڑ کے بارے سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھا ہے:
حنفیہ کے نزدیک چمگادڑ کی حلت و حرمت میں اختلاف ہے، اِس لئے احتیاط اِس کے استعمال نہ کرنے میں ہے، الا یہ کہ مسلم حاذق ڈاکٹر یہ کہے کہ اُس کے علاوہ کوئی علاج نہیں تو ضرورۃً جائز ہوگا

(کتاب النوازل, جلد 16,صفحہ 184,سوال نمبر 679 ,مطبوعہ المرکز العلمی للنشروالتحقیق, لال باغ, مراد آباد)

مفتی سلمان منصور پوری دیوبندی نے بھی چمگادڑ کا حلال و حرام ہونا حنفیہ میں اختلافی مسئلہ مان لیا ہے
.
قارئین کرام!
آپ نے ملاحظہ کیا کہ دیوبندی علمانے بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ حنفیہ میں چمگادڑ کا حلال و حرام ہونا اختلافی مسئلہ ہے.
لیکن اس کے باوجود دیوبندی دجال ساجد خان اعلٰی حضرت پر اعتراض سے باز نہ آیا۔
کیا دیوبندی چمگادڑ کو حلال کہنے والے فقہائے احناف کو بھی “خبیث” کہیں گے؟
جیساکہ معترض ساجد خان دیوبندی دجال نے اعلٰی حضرت کے بارے میں لکھاہے.

دیوبندی علماء کے حوالہ جات قارئین نے ملاحظہ کر لیے

اب آخر میں سیدی اعلٰی حضرت امام احمد رضا کی تحریر ملاحظہ فرمائیے جس میں آپ نے چمگادڑ کےحلال و حرام ہونے پرکتبِ فقہ کے حوالہ جات بیان فرمائے ہیں:
سیدی اعلٰی حضرت فرماتے ہیں:
“چمگادڑ چھوٹا ہو یا بڑا جسے ان دیار میں باگل کہتے ہیں، اس کی حِلّت حُرمت ہمارے علمائے کرام رحمہُ اللّٰہ تعالٰی میں مختلف فیہ ہے.بعض اکابر نے اس کے کھانے سے ممانعت فرمائی ہے اس وجہ سے کہ وہ ذی ناب ہے، مگر قواعدِ حنفیہ کے موافق وہی قولِ حِلّت ہے، مطلقاً دانت موجب نہیں, بلکہ وہ دانت جن سے جانور شکار کرتا ہو، ظاہر ہے کہ چمگادڑ پرند شکاری نہیں، ولہٰذا “درمختار” میں قولِ حُرمت کی تضعیف فرمائی
“ہندیہ”میں “ظہیریہ” سے ہے :
“اما الخفاش فقد ذکر فی بعض المواضع انہ یوکل، وفی بعض المواضع انہ لا یوکل لان لہ نابا”اھ
(فتاوٰی ہندیہ,کتاب الذبائح, الباب الثانی,جلد5, صفحہ290, مطبوعہ نورانی کتب خانہ پشاور)
ترجمہ:
“چمگادڑ کے متعلق بعض مواضع میں ذکر ہے کہ کھایا جائے اور بعض مواضع میں ہے کہ نہ کھایا جائے کیونکہ اس کے کیلے ہوتے ہیں”اھ
(سیّدی اعلٰی حضرت فرماتے ہیں) “ورأیتنی کتبت علی ہامشہ مانصہ فیہ انہ لایصید بنابہ، ولایصول ولیس کل مالہ ناب حراما”۔
ترجمہ:
“مجھے یاد ہے کہ میں نے اس کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ یہ اپنے کیلے سے شکار نہیں کرتا اور نہ ہی یہ حملہ آور ہوتا ہے اور ہر کیلے والا حرام نہیں ہوتا”۔
برجندی میں ہے:
“ذکر فی المحیط ان فی الخفاش اختلاف العلماء” اھ۔
( شرح النقایہ للبرجندی, کتاب الذبائح,جلد3, صفحہ193 مطبوعہ نولکشور, لکھنؤ)
ترجمہ:
“محیط میں مذکور ہے کہ چمگادڑ میں علماء کا اختلاف ہے”
اھ_
درمختارمیں ہے:
“وقیل الخفاش لانہ ذوناب”
ترجمہ:
“بعض نے کہا چمگادڑ حرام ہے کیونکہ یہ کیلے والا ہے”
(درمختار, کتاب الذبائح, جلد2, صفحہ 229 مطبع مجتبائی, دہلی)
ردالمحتارمیں ہے :
“قال الاتقانی وفیہ نظرلان کل ذی ناب لیس بمنہی عنہ اذا کان لایصطاد بنایہ”۔اھ۔(ردالمحتار,کتاب الذبائح, جلد5 صفحہ196 داراحیاء التراث العربی, بیروت)
ترجمہ:
“اتقانی نے کہا ہے اور اس میں اعتراض ہے کیونکہ ہر کیلے والا حرام نہیں ہے جبکہ وہ اپنے کیلے سے شکار نہ کرتا ہو “۔اھ۔
برجندی میں ہے:
“المراد الناب الذی ھو سلاح وذوالناب الحیوان الذی ینہب بالناب”۔اھ۔
(شرح النقایہ للبرجندی, کتاب الذبائح,جلد3, صفحہ193, مطبوعہ نولکشور,لکھنؤ)
ترجمہ:
“ناب (کیلے) سے مراد وہ ہے جو ہتھیار بنے،اور کیلے والا جانور وہ ہے جو کیلے کے ساتھ حملہ آور ہو”۔
واللّٰہ سبحانہ وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔
(فتاوی رضویہ, جلد20, صفحہ218 و 219, مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن,جامعہ نظامیہ,اندرون لوہاری دروازہ,لاہور)

رہی یہ بات کہ مفتی اقتدار خان نعیمی نے چمگادڑ کو حرام لکھا ہے تو اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ :
مفتی اقتدار خان کے نزدیک چمگادڑ ایک شکاری پرندہ ہے اس لیے حرام ہے
جبکہ اعلٰی حضرت کے نزدیک چمگادڑ شکاری پرندہ نہیں اس لیے حلال ہے.دونوں کی اپنی اپنی تحقیق ہے اور ویسے بھی دیوبندی اصول کے مطابق اکابرکے مقابلے میں اصاغر کے قول کو اہمیت نہیں دی جاتی.
یہ عجلت اور کم فرصتی میں لکھا ہے. ضرورت پڑنے پر مزید ھی لکھا جا سکتاہے.

مؤرخہ 5 فروری 2020ء بوقت 11:25 شب۔تمّت