.*عید میلادالنبی ﷺ  دلائل کی روشنی میں*

*EID MILAD-UN-NABI DALAIL KI ROSHNI MEIN*

➖➖➖➖➖➖➖➖

عالمِ اسلام میں ماہِ ربیع الاول بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اسی مبارک ماہ کی ۱۲ تاریخ کو ہمارے نبی حضرت محمد مصطفےٰ  صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم  کی ولادت با سعادت ہوئ لہٰذا اسی ولادت مبارکہ کی خوشی میں عوامِ اہلِ سنت گلی کوچوں کو سجاتے ہیں جگہ جگہ جھنڈے نصب کیے جاتے ہیں ۔ علمائے اہلِ سنت کے میلادِ مصطفٰے کے عنوان پر نورانی تقاریر ہوتے ہیں ۔ نبی کریم  صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم  کے ولادت مبارک ،معجزات ، خصائص، سیرتِ مبارکہ کے دیگر گوشوں کے متعلق بیانات ہوتے ہیں۔ ثناء خوانِ مصطفٰے  صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم  حضرتِ حسان  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سنت ادا کرتے ہوئے جگہ جگہ نعت مصطفٰے  صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم  گنگناتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

ہم اس مختصر پمفلٹ میں آپ تک چند دلائل پیش کر رہے ہیں جس کا آپ بغور مطالعہ کریں ۔ 

عیدمیلادالنبی  صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم منانے والوں پر پہلا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ عیدمیلادالنبی منانا بدعت ہے؟

اس سوال کا جواب صحیح مسلم شریف کی حدیث میں موجود ہے ۔حضرت جریر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ  صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم  نے ارشاد فرمایا جو اسلام میں کسی اچھے طریقے کو رائج )جاری(کریگا تو اس کو اپنے رائج( جاری )کرنے کا بھی ثواب ملے گا اور دوسرے لوگوں کے عمل کرنے کا بھی(ثواب ملے گا) جو اس کے بعد اس طریقے پر عمل کرتے رہیں گےاور عمل کرنے والوں کے ثواب میں کوئ کمی بھی نہ ہوگی۔ اور جو مذہب اسلام میں کسی بُرے طریقے کو جاری کرے گا تو اس شخص پر اُس کے جاری کرنے کا بھی گناہ ہوگا اور ان لوگوں کے عمل کرنے کا بھی گناہ ہوگا جو اس کے بعد اس طریقے پر عمل کرتے رہیں گے اور عمل کرنے والوں کے گناہ میں کوئ کمی نہ ہوگی ۔(صحیح مسلم ۔کتاب العلم) 

صحیح حدیث سے اچھے کام کرنے کی اجازت مل رہی ہے چاہے وہ کام نیا ہی کیوں نہ ہو،اور نبی کریم  صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم  کی ولادتِ مبارکہ منانا اچھے کاموں میں سے بہت ہی اچھا کام ہے۔ 

حضرت امامِ بیہقی رحمۃ اللہ تعالیٰ عنہ  حضرت امام شافعی  رحمۃ اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں ” نئی پیدا ہونے والی باتیں دو۲ قسم پر ہیں ۔ ایک وہ کہ قرآن یا احادیث یا آثار یا اجماع امت کے خلاف نکالی جائیں۔ تو یہ بدعتِ ضلالہ(گمراہی)ہے اور دوسری قسم وہ اچھی باتیں ہیں جو ان مذکورہ چیزوں کے خلاف نہ نکالی جائیں تو وہ بدعتِ حسنہ (اچھی بدعت)ہے۔”( حسن المقصد فی عمل المولد)

علامہ شامی حنفی  رحمۃ اللہ تعالیٰ عنہ تحریرفرماتےہیں “بدعت حسنہ جو کہ مقصود شرع کے موافق ہوتی ہے اس کا نام سنت رکھا جاتا ہے (ردالمحتار-جلداول) مشکوٰۃ شریف میں ہے حلال وہ جس کو اللہ نے اپنی کتاب میں حلال کیا اور حرام وہ جس کو اللہ نے اپنی کتاب میں حرام کیا اور جس سے خاموشی فرمائ وہ معاف ہے (کتاب الاطعمۃ)

احادیث مبارکہ اور ان کے شروحات سے صاف پتا چل رہا ہے کہ شریعتِ مطہرہ نے اچھے کام کرنے پر کوئ روک نہیں لگائ ،بلکہ کرنے کی اجازت عطا کی ہے۔

 عیدمیلادالنبی  صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم  کا انعقاد کرنا شرعًا مستحب ہے ۔ کسی مستحب کام کے لئے قطعی الثبوت اور قطعی الدلالت نص کا پایا جانا ضروری نہیں ہوتا۔ قطعیت کے ساتھ ثابت ہونے والا حکم تو فرض ہوتا ہے ۔ مستحب کام کے لئے قرآن اور حدیث کا سرسری حکم اور اشارہ کافی ہوتا ہے۔

اللہ جل جلالہ  ارشاد فرماتاہے 

۱۔ قُلْ بِفَضْلِ اللَّـهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ ﴿ سورہ یونس ٥٨ ﴾ 

تم فرماؤ اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پر چاہیے کہ خوشی کریں وہ ان کے سب دھن دولت سے بہتر ہے، (ترجمہ کنزالایمان)

اس آیت میں اللہ کے فضل اور اسکی رحمت پر خوشیاں منانے کا حکم ہے نبوت اللہ کا فضل بھی ہے اور نبی کریم  صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم  اللہ کی رحمت بھی ہیں ، لہٰذا نبی کریم  صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کی ولادت با سعادت کے موقع پر خوشی منانا اس آیت سے ثابت ہوا۔ 

۲۔  وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ ﴿سورہ الضحٰی١١﴾  

 اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو (ترجمہ کنزالایمان)

اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی عطا کردا نعمت کے چرچا کرنے کا حکم عطا فرما رہا ہے اور نبی کریم  صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم  اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہیں حضرت عباس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ سورہ ابراہیم کی تفسیر میں ارشاد فرماتے ہیں۔ “اللہ کی نعمت کو بدلنے والوں سے مراد قریش کے کفارہیں اور حدیث کے راوی عمرو فرماتے ہیں کہ وہ قریش تھے اور اللہ کی نعمت سے مراد حضرت محمد  صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم  ہیں (بخاری شریف جلد دوم)

۳۔ لَقَدْ مَنَّ اللَّـهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا(سورہ آل عمران۱۶۴)

ترجمہ ۔بیشک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا ۔

اس آیتِ کریمہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر اپنے نبی کو بھیج کر احسان فرمایا اور اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ اُس احسان کا چرچا کیا جائے۔الحمدللہ حضور  صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم  کا میلادِ مبارکہ منا کر اہل سنت والجماعت اللہ کی عطا کردہ نعمت کا چرچا کر رہے ہیں۔

ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ میلادالنبی کی دلیل حدیث سے دی جائے یہ بات یاد رکھیں کہ حضور  صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم  کا میلاد ہر دور میں منایا گیا بھلے ہی وہ طریقہ الگ الگ رہا ہومگر مقصد ایک تھا اوروہ آمدِمصطفےٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کی خوشی جسے آج بھی اہل سنت و جمات ادا کر رہے ہیں۔

جامع ترمذی کتاب المناقب ،میں ایک باب کا نام ہے ماجاء فی میلادالنبی  صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم  ،اس باب میں حدیث شریف ہے 

حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت قباث ابن اشیم سے پوچھا کہ آپ بڑے ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم  بڑے ہیں۔ انہوں نے فرمایا ،رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم  مجھ سے بڑے ہیں مگر میں پہلے پیدا ہوا تھا ۔(ترمذی شریف جلد ۲)

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ لفظ میلاد نیا لفظ نہیں ہے اور صحابہ کرام علیہم الرضوان آپس میں تذکرہِ میلاد کیا کرتے تھے۔

دوسری حدیث۔ حضور  صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم  ہر پیر کے دن روزہ رکھا کرتے تھے حضرت قتادہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس روزہ کے بارے میں آپ  صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم  سے سوال کیا تو آپ  صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم  نے ارشاد فرمایا ۔ ذاﻟﻚ یوم فیہ ولدت وفیہ انزل(مسلم شریف جلد دوم کتب الصیام) 

ترجمہ۔ یہ دن میری ولادت کا دن ہے اور اس دن اللہ تعالیٰ کا کلام (وحی )مجھ پر نازل ہوئی

اس حدیث میں تو میلاد منانے کی تصریح موجود ہے۔اور وہ بھی سالانہ یا  ماہانہ نہیں بلکہ ہر ہفتہ ہے۔

تیسری حدیث۔ ترمذی شریف کی حدیث ہے 

نبی کریم  صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم  منبر پر تشریف لائے اور فرمایا میں کون ہوں سب (صحابہ)نے عرض کیا آپ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم  ہیں۔فرمایا میں محمد(  صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم  )ہوں، عبداللہ کا بیٹا ہوں عبدالمطلب کاپوتا( ہوں) اللہ نے مخلوق کو پیدا کیا تو مجھے اچھے گروہ میں پیدا کیا ۔ یعنی انسان بنایا۔ انسانوں میں گروہ پیدا کئے (عرب و عجم )اور مجھے اچھے گروہ (عرب )سے بنایا پھر عرب میں کئ قبیلے بنائے اور مجھ کو سب سےاچھے قبیلے (قریش )میں بنایا پھر قریش میں کئ خاندان بنائے اور مجھ کو سب سےاچھے خاندان( بنو ہاشم )میں پیدا کیا۔

پس میں ذاتی طور پر بھی سب سے اچھا ہوں اور خاندانی لحاظ سے بھی سب سے اچھاہوں (ترمذی شریف جلد دوم باب المناقب، مشکوٰۃشریف فضائل سید المرسلین)

ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ اسلام میں تو صرف ۲ ہی عیدیں ہیں عیدالفطر اورر عیدالضحیٰ ہیں یہ تیسری عید  ( عیدِمیلادالنبی)کہاں سے آگئ؟

اس اعتراض کا جواب بھی ہمیں حدیث شریف دیتی ہوئ نظر آتا ہے۔

بخاری شریف و مسلم شریف میں ہے کہ جب “اکملت لکم دینکم الخ” نازل ہوئی تو ایک یہودی نے امیرالمومنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا اگریہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس آیت کے نزول کے دن کو عید مناتے ۔

حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ہمیں وہ دن معلوم ہے (وہ دن جمعہ اور مقام عرفات تھا ) حضرت عمر نے گویا اشارہ کیا کہ وہ دن ہمارے لئے واقعی عید کا دن ہے حدیث میں جمعہ کہ دن کو عید کا دن کہا گیا اور ایک سال میں تقریباً ۵۲ جمعہ آتے ہیں۔

امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ تعالیٰ عنہ مالکی بزرگ شیخ ابو الطیب محمد بن ابراہیم السبقی المتوفیٰ ۳۹۵ھ کے حوالے سے لکھتے ہیں وہ بارہ ربیع الاول کو ایک مدرسہ کے پاس سے گزرے تو وہاں کے زمدار کو مخاطب ہو کر فرمایا “یا فقھ ھٰذٰ الیومہ سرورا صرف الصبیان (اطاوی سلفتاویٰ)

ترجمہ ۔ اے فقیہ آج خوشی کا دن ہے لہذٰ بچوں کو چھٹی دے دو۔

حضرت امام قسطلانی شارح بخاری المتوفیٰ۹۹۱ ھ تحریر فرماتے ہیں

فصح اللّٰہ اصرا اتخذ لیالی شھر مولدہ المبارک اعیادا فیکون اشد علۃ علی من فی قلبلہ مرض (المواہب اللد نیہ جلد۱)

ترجمہ ۔ اللہ تعالیٰ اس شخص کو سلامت رکھے جس نے آپ کی میلاد کے مہینے کی راتوں کو عید مناکر ہر اس شخص پر شدت کی جس کے دل میں مرض ہے۔

ایک سوال یہ بھی ہوتا ہے کہ میلاد النبی منانےکے کیا فائدے ہیں؟

جواب:- میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم  منانے کا کتنا فائدہ ہے اس کا اندازہ آپ بخاری شریف کی اس حدیث شریف سے لگا سکتے ہیں۔ 

جب ابو لہب مرگیا تو اُس کے بعض اہل (حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ)نے اس کو خواب میں  بہت بُرے حال میں دیکھا تو پوچھا تجھ پر کیا گذری؟ ابولہب نے کہا تم سے جُدا ہوکر مجھے کوئی خیرنہیں ملی سوائے اس کے کہ میں سیراب کیا جاتا ہوں( کلمہ کی اُنگلی سے پیر کے دن) کہ اس دن میں نے اس انگلی سے (حضور کی پیدائش کی خوشی میں) ثوبیہ (لونڈی) کو آزاد کیا تھا ۔( بخاری شریف)

 ابو لہب جیسا سخت کافر جب نبی کریم  صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم  کی میلاد کی خوشی منا کر ہرپیر کے دن عذاب میں تخفف پا رہا ہے تو ہم مسلمان  نبی کریم  صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم  کی میلاد مبارک کی خوشی منا کر کیا فیض نہیں پائیں گے ؟ الحمد للہ بے شمار فیوض و برکات پائیں گے۔ 

میلاد منانا ہمیشہ سے امت کے بزرگوں کا معمول رہا ہے

۱۔علامہ ابن جوزی المتوفیٰ ۵۷۹ ھ اپنے زمانے کا حال تحریر فرماتے ہیں کہ ” ہمیشہ مکہ مکرمہ مدینہ منورہ، مصر ، شام، یمن، غرض شرق سے غرب تک تمام بلاد ِعرب کے باشندے میلادالنبی کی محفلیں منعقد کرتے آئے ہیں۔ جب ربیع الاول کا چاند دیکھتے ہیں تو ان کی خوشی کی انتہا نہیں رہتی چنانچہ ذکرِ میلاد پڑھنے اور سننے کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں اور بے پناہ اجر و ثواب حاصل کرتے ہیں” (المیلاد النبوی، ابن جوزی)

۲۔ امام ذہبی المتوفیٰ ۷۴۸ھ فرماتے ہیں “ملک المظفر کے محفلِ میلاد النبی منانے کے انداز کو الفاظ بیان کرنے سے قاصر ہے ۔ جزیرۃ العرب اور عراق سے لوگ کشاں کشاں اس محفل میں شریک ہونے کے لئے آتے ۔۔۔ اور کثیر تعداد میں اونٹ ، اور بکریاں ذبح کی جاتیں اور انوا ع و اقسام کے کھانے پکائے جاتے ۔ وہ صوفیا ء کے لئے کثیر تعداد میں خلعتیں تیار کرواتا ۔ اور واعظین وسیع و عریض میدان میں خطبات کرتے اور وہ بہت زیادہ مال خیرات کرتا۔ ابن دحیہ نے اس کے لئے میلاد النبی کے موضوع پر کتاب تالیف کی تو اسے اک ہزار دینار دئے ، وہ منکسر المزاج ، راسخ العقیدہ بادشاہ تھا۔فقہاء اور محدثین سے محبت کرتا تھا ۔ ابن جوزی کہتے ہیں شاہ مظفرالدین ہر سال محفلِ میلاد النبی پر تین لاکھ دینار خرچ کرتا تھا “۔ (سیراعلام النبلاء جلد ۱۶، البدایہ و النہایہ جلد ۹ ابن کثیر)

۳۔ امام ابن حجر عسقلانی المتوفیٰ ۸۵۲ ھ تحریر فرماتے ہیں ” مجھے میلاد النبی کے بارے میں اصل تخریج کا پتہ چلا جو صحیحین سے ثابت ہے کہ حضور  صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم  مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ  صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم  نے یہود کو عاشورہ کے دن روزہ رکھتے ہوئے پایا ، آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم  نے ان سے پوچھا ایسا کیوں کرتے ہو ؟ اس پر ان لوگوں نے کہا کہ اس دن اللہ تعالیٰ نے فرعون کو غرق کیا اور حضرتِ موسیٰ  علیہ السلام  کو اس سے نجات دی ، ہم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شکر بجا لانے کے لئے اس دن کا روزہ رکھتے ہیں “۔

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ کسی معین دن میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی احسان وانعام کے عطا ہونے یا کسی مصیبت کے ٹل جانے پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لانا چاہیئے اور ہر سال اس دن کی یاد تازہ کرنا بھی مناسب تر عمل ہے اللہ تعالیٰ کا شکر نماز و سجدہ ، روزہ ، صدقہ ، اور تلاو تِ قرآن و دیگر عبادات کے ذریعہ بجا لایا جا سکتا ہے اور حضور  صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم  نبی رحمت کی ولادت سے بڑھ کر اللہ کی نعمتوں میں سے کونسی نعمت ہے ؟ اس لئے اس دن ضرور اللہ کا سجدہ شکر بجا لانا چاہیئے  ( حسن المقصد فی عمل المولد)

۴۔امام ابن حجر مکی  رحمۃ اللہ تعالیٰ عنہ  المتوفیٰ ۹۷۳ ھ تحریر فرماتے ہیں” ہمارے یہاں میلاد و اذکار کی جو محفلیں منعقد ہوتی ہیں وہ ذیادہ تر بھلے کاموں پر مشتمل ہوتی ہیں ، مثلاً ان میں ذکر کیا جاتا ہے حضور  صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم  پر درود و سلام پڑھا جاتا ہے اور صدقات دیئے جاتے ہیں ، یعنی غربا ء کی امداد کی جاتی ہے”۔( فتاویٰ حدیثیہ )

۵۔امامِ نووی المتوفیٰ ۶۶۵ ھ تحریر فرماتے ہیں” شہرِ اربل کو اللہ تعالیٰ حفظ و امان عطا کرے ۔ اس بابرکت شہر میں ہر سال میلادالنبی کے موقع پر اظہارے فرحت و سُرورکے لئے صدقات و خیرات کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ، نیک کام کیئے جاتے ہیں ، صاف ستھرے لباس پہنے جاتے ہیں ۔ یہ ایک حسین ترین طریقہ( میلادالنبی )ہے ۔ ( الباعث علی انکار البدع والحوادث) 

۶۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی المتوفیٰ ۱۱۷۴ھ تحریر فرماتے ہیں ” میرے والد حضرت شاہ عبدالرحیم  رحمۃ اللہ تعالیٰ عنہ   ہر پیر کے دن با قاعدگی سے میلاد النبی مناتے تھےاور کھانے کی کسی چیز پر نیاز دلا کر تقسیم کر دیتے تھے ۔ ایک مرتبہ گھر میں کچھ نہ تھا والد نےبھُنے ہوئے چنے لے کر ان پر ہی نیاز دلا دی اور تقسیم کر دیے۔ رات کو خواب میں نبی کریم  صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم  کی زیارت ہوئی آپ  صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم  کے سامنے وہ چنے رکھے تھے آپ  صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم  خو ش ہو رہے تھے۔(المدرثمین فی مبشرات النبی الامین)

اب آخر میں ہم شیخ عبدالحق محدث دہلوی المتوفیٰ ۱۰۵۲ھ کے ان مبارک کلمات پر اس عنوان کو ختم کرتے ہیں ،شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ” اے اللہ میرا کوئی عمل ایسا نہیں جسے تیرے دربار میں پیش کرنے کے لائق سمجھوں ۔ میرے تمام اعمال میں فسادِ نیت موجود رہتا ہے ۔ البتہ مجھ فقیر کا ایک عمل تیری ذاتِ پاک کی عنایت کی وجہ سے بہت شاندار ہے اور وہ یہ ہے کہ مجلسِ میلاد کے موقع پر میں کھڑے ہوکر سلام پڑھتا ہوں۔ )اخبار الاخیار)

اِن دلائل سے یہ پتہ چلا کہ میلاد النبی  صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم  کا منانا صحابہ کرام اور بزرگانِ دین سے چلا آرہا ہے۔ اور اب تک جاری وا ساری ہے۔ہم بھی مل کر حضور  صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم  کا میلاد مبارک منائیں۔ اور جھوم جھوم کر کہیں
جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند

اُس  دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام